ایک پُرخلوص سلام میرے تمام پیارے قارئین کو! امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے اور زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ آج ہم ایک ایسے موضوع پر بات کرنے جا رہے ہیں جو میرے دل کے بہت قریب ہے اور بے حد دلچسپ بھی: ہندو مت اور تعلیم کا آپس کا گہرا تعلق۔ جب میں تعلیم کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میرا ذہن صرف کتابوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ بھی دیکھتا ہوں کہ کیسے ہماری ثقافت اور اقدار ہماری شخصیت کو سنوارتی ہیں۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح آج بھی بہت سی فیملیز اپنے بچوں کو صرف جدید تعلیم ہی نہیں بلکہ اپنی جڑوں اور روحانی تعلیمات سے بھی جڑے رکھنے کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔ یہ ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو ہمیں نہ صرف دنیاوی کامیابیاں سمیٹنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی پہلوؤں سے بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ آج کے اس تیز رفتار اور بدلتے ہوئے دور میں جہاں ہر طرف نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی باتیں ہوتی ہیں، یہ دیکھنا میرے لیے حیران کن ہے کہ قدیم روایات، جیسا کہ ہندو مت میں پائی جاتی ہیں، کیسے آج بھی علم کی پیاس بجھانے والوں کے لیے ایک مضبوط ستون کا کام کر رہی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک قوم کی ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پنہاں ہوتا ہے، اور جب تعلیم کو اپنے ورثے سے جوڑ دیا جائے تو اس کی تاثیر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ تو آئیے، اس اہم موضوع پر مزید تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
قدیم ہندوستان میں علم کی روشنی اور اس کا پھیلاؤ
میرے پیارے دوستو، جب میں علم اور تعلیم کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میرا ذہن خود بخود قدیم ہندوستان کی طرف چلا جاتا ہے، جہاں علم کو صرف کتابوں تک محدود نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ اسے زندگی کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ آپ یقین کریں گے کہ اس وقت کی تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ ایک مکمل انسان بنانا تھا۔ میں نے اپنی تحقیق میں یہ محسوس کیا ہے کہ آج کی دنیا میں جہاں ہم تیزی سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں شامل ہیں، وہیں ہمیں اپنی جڑوں سے جڑے رہنا بھی بہت ضروری ہے۔ قدیم ہندوستان میں علم کو ایک مقدس حیثیت حاصل تھی اور اسے روحانی ارتقاء کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں تعلیم کا نظام اس قدر مضبوط تھا کہ ہزاروں سال بعد بھی اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ گروکل کا نظام، جہاں شاگرد اپنے استاد کے ساتھ رہ کر علم حاصل کرتے تھے، اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہ صرف رسمی تعلیم نہیں تھی، بلکہ زندگی گزارنے کے آداب، اخلاقی اقدار اور روحانی رہنمائی کا ایک مکمل پیکیج تھا۔ میں نے بہت سے بزرگوں سے سنا ہے کہ کیسے وہ زمانہ تھا جب ایک گرو اپنے شاگرد کی صرف ذہنی ہی نہیں بلکہ روحانی اور جسمانی نشوونما کا بھی خیال رکھتا تھا۔ یہ ایک ایسا رشتہ تھا جو محبت، احترام اور اعتماد کی بنیاد پر قائم تھا۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ اگر ہم آج بھی اپنے تعلیمی نظام میں ان اقدار کو شامل کر لیں تو ہماری نئی نسل نہ صرف بہترین تعلیمی نتائج حاصل کرے گی بلکہ ایک متوازن اور بااخلاق شخصیت کی مالک بھی بنے گی۔
تکشاشیلہ اور نالندہ: علم کے عظیم مراکز
آپ سب نے یقیناً تکشاشیلہ اور نالندہ کے بارے میں سنا ہوگا۔ یہ صرف یونیورسٹیاں نہیں تھیں، بلکہ علم کے وہ روشن مینار تھے جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی روشنی سے منور کیا۔ میں جب ان عظیم اداروں کے بارے میں پڑھتا ہوں تو مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنے خطے میں موجود تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں طلباء، جو دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے تھے، یہاں علم حاصل کرنے آتے تھے۔ سوچیں، آج سے ہزاروں سال پہلے، جب سفر کے ذرائع اتنے جدید نہیں تھے، تب بھی لوگ اتنا لمبا سفر طے کر کے علم کی پیاس بجھانے آتے تھے! یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تعلیمی اداروں کا معیار کتنا بلند تھا۔ یہاں صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں دی جاتی تھی، بلکہ ریاضی، طب، فلکیات، فلسفہ، اور فنون لطیفہ جیسے مختلف شعبوں میں بھی گہرا علم فراہم کیا جاتا تھا۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے ایک دستاویزی فلم میں دیکھا تھا کہ نالندہ میں ایک لائبریری تھی جسے دھرم گنج کہا جاتا تھا، اور اس میں لاکھوں نایاب مخطوطات موجود تھے۔ یہ تو واقعی حیران کن ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے علم کے تحفظ اور فروغ کے لیے کتنی محنت کی تھی۔ مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوشی ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسے ورثے کے امین ہیں جہاں علم کو بادشاہوں اور جنگجوؤں سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔
ویدک دور میں تعلیم کا تصور
ویدک دور میں تعلیم کو ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ میں نے جب بھی ویدوں کا مطالعہ کیا ہے، مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ ان میں صرف مذہبی رسومات ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں گہرا فلسفہ اور عملی رہنمائی موجود ہے۔ اس دور میں علم حاصل کرنے کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ خود کو پہچاننا اور کائنات کے رازوں کو سمجھنا تھا۔ تعلیم کا آغاز ‘اوپنیا’ کی رسم سے ہوتا تھا، جہاں ایک بچے کو گرو کے سپرد کر دیا جاتا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت ہی خوبصورت روایت تھی جہاں شاگرد اپنے گرو کو اپنے والد کی طرح احترام دیتا تھا اور گرو اسے اپنے بچے کی طرح تعلیم دیتا تھا۔ اس وقت کی تعلیم میں زبانی تعلیم پر بہت زور دیا جاتا تھا، جہاں شاگرد اشلوک اور منتروں کو یاد کرتے تھے۔ یہ ان کی یادداشت کو تیز کرنے کا ایک شاندار طریقہ تھا۔ مجھے یاد ہے میرے دادا جان بھی اسی طرح قرآنی آیات کو حفظ کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ یادداشت کی مشق بہت ضروری ہے۔ اس دور میں تعلیمی ماحول بہت پرسکون اور فطرت کے قریب ہوتا تھا، جو سیکھنے کے عمل کو مزید موثر بناتا تھا۔
گرو اور شیشیا: علم کا مقدس رشتہ
دوستو، ہندو مت میں گرو (استاد) اور شیشیا (شاگرد) کا رشتہ صرف ایک استاد اور طالب علم کا نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی اور جذباتی تعلق ہوتا ہے جو زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو آج بھی اپنے اساتذہ کا ذکر بہت احترام سے کرتے ہیں اور انہیں اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔ گرو کو علم اور حکمت کا منبع سمجھا جاتا ہے، اور اس کا مقام والدین سے بھی بلند مانا جاتا ہے۔ میری والدہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ استاد کا احترام کرنا کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ گرو اپنے شاگرد کو صرف درسی کتابوں کا علم ہی نہیں دیتا، بلکہ اسے زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے اور صحیح راستہ منتخب کرنے کی بھی تربیت دیتا ہے۔ وہ ایک چراغ کی مانند ہوتا ہے جو تاریکی میں روشنی دکھاتا ہے۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب کوئی استاد اپنے شاگرد کے ساتھ ذاتی سطح پر جڑ جاتا ہے تو تعلیم کا عمل کتنا آسان اور موثر ہو جاتا ہے۔ گروکل کے نظام میں تو شاگرد گرو کے ساتھ رہ کر نہ صرف علم حاصل کرتے تھے بلکہ گرو کے طرز زندگی سے بھی بہت کچھ سیکھتے تھے۔ یہ ایک ایسی تربیت تھی جو ان کی شخصیت کو مکمل طور پر نکھار دیتی تھی۔ میرے خیال میں آج ہمیں بھی اپنے اساتذہ کو وہ مقام دینا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں۔
گرو کی اہمیت اور اس کا مقام
ہندو مت کی تعلیمات میں گرو کو بھگوان کا درجہ دیا گیا ہے۔ گرو برہما، گرو وشنو، گرو دیوو مہیشوارا… یہ شلوک گرو کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ گرو ہی برہما (تخلیق کار)، وشنو (محافظ) اور مہیشور (تباہ کرنے والا) ہے۔ یعنی گرو ہی تمام علم اور ہنر کا سرچشمہ ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے کئی کہانیاں سنی ہیں جہاں شاگردوں نے اپنے گرو کے لیے ہر قربانی دی اور ان کی خدمت کو اپنی عبادت سمجھا۔ گرو اپنے شاگرد کے لیے صرف ایک استاد نہیں ہوتا، بلکہ ایک دوست، رہنما اور فلاسفر بھی ہوتا ہے۔ وہ شاگرد کی ہر مشکل میں اس کا ساتھ دیتا ہے اور اسے صحیح اور غلط کی تمیز سکھاتا ہے۔ میں نے کئی بار اپنی پریشانیوں میں اپنے اساتذہ سے مشورہ لیا ہے اور ان کی رہنمائی نے مجھے ہمیشہ صحیح راستہ دکھایا ہے۔ گرو اپنے شاگرد کے اندر چھپی صلاحیتوں کو پہچانتا ہے اور انہیں پروان چڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ ایک اچھا استاد آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔
شاگرد کی ذمہ داریاں اور عاجزی
جس طرح گرو کا ایک خاص مقام ہوتا ہے، اسی طرح شاگرد کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ہندو مت کی تعلیمات میں شاگرد کو ہمیشہ عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ میرے والد ہمیشہ کہتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر عاجزی پیدا کرو۔ ایک شاگرد کو اپنے گرو کا احترام کرنا چاہیے، اس کی بات کو غور سے سننا چاہیے اور اس کے دیے گئے علم پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ گروکل کے نظام میں شاگرد اپنے گرو کی خدمت کرتے تھے، اس کے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے اور اس طرح نہ صرف عملی زندگی کے سبق سیکھتے تھے بلکہ اپنے اندر عاجزی اور خدمت کا جذبہ بھی پیدا کرتے تھے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم آج بھی اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ اپنے اساتذہ کا احترام کریں اور ان کی باتوں کو توجہ سے سنیں تو وہ نہ صرف بہترین تعلیمی نتائج حاصل کریں گے بلکہ ایک اچھے انسان بھی بنیں گے۔
دھرم اور تعلیم: زندگی کا فلسفہ
دوستو، ہندو مت میں تعلیم کو صرف کتابی علم تک محدود نہیں رکھا جاتا بلکہ اسے “دھرم” کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے، جو اخلاقی اقدار، فرض اور راستبازی کا ایک جامع تصور ہے۔ میں نے جب بھی اپنی ثقافت کے بارے میں گہرائی سے سوچا ہے، تو یہ محسوس کیا ہے کہ دھرم ہمیں صرف یہ نہیں سکھاتا کہ کیا کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ زندگی کو بامقصد کیسے بنایا جائے۔ تعلیم کا مقصد ایک ایسا شخص تیار کرنا تھا جو دھرم کے اصولوں پر کاربند ہو اور سماج میں مثبت کردار ادا کرے۔ یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جو انسان کو خودغرضی سے نکال کر دوسروں کے بھلے کے لیے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ میرے دادا جی اکثر کہتے تھے کہ اصل تعلیم وہ ہے جو آپ کو اچھا انسان بنائے۔ ہندو مت میں علم کو روشنی اور جہالت کو تاریکی سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم کا مقصد اس تاریکی کو دور کرنا اور روشنی پھیلانا ہے۔ میں نے کئی بار یہ سوچا ہے کہ اگر ہماری تعلیم میں اخلاقیات اور اقدار کو زیادہ اہمیت دی جائے تو ہم ایک بہتر سماج بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا حسین امتزاج ہے جہاں علم اور اخلاق ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
اخلاقی اقدار اور کردار سازی
ہندو مت کی تعلیمات میں اخلاقی اقدار اور کردار سازی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، صرف ٹیکنیکی علم ہی کافی نہیں، بلکہ ایک مضبوط اخلاقی بنیاد بھی ضروری ہے۔ ویدوں، اپنیشدوں اور گیتا جیسی مقدس کتابوں میں ہمیں بے شمار ایسے اصول ملتے ہیں جو ہمیں ایمانداری، سچائی، رحم دلی اور برداشت کا درس دیتے ہیں۔ گروکل میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا تھا کہ سچ بولیں، دوسروں کا احترام کریں، اور اپنے فرائض کو ایمانداری سے ادا کریں۔ یہ اقدار صرف مذہبی نہیں تھیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے وہ لوگ جو اخلاقی طور پر مضبوط ہوتے ہیں، وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
علم اور سماجی ذمہ داری
ہندو مت میں علم حاصل کرنے کا مطلب صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا نہیں تھا، بلکہ سماجی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنا تھا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ جس کے پاس جتنا زیادہ علم ہوتا ہے، اس پر اتنی ہی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس علم کو سماج کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرے۔ قدیم ہندوستان میں علمائے کرام اور رشی منی اپنی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچاتے تھے اور انہیں صحیح راستہ دکھاتے تھے۔ وہ صرف پڑھانے والے نہیں تھے بلکہ سماجی رہنما بھی تھے۔ یہ ایک ایسا جذبہ تھا جو انہیں خودغرضی سے نکال کر سماج کی خدمت پر آمادہ کرتا تھا۔ آج بھی ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے علم کو کیسے اپنے معاشرے کے لیے مفید بنا سکتے ہیں۔
جدید دور میں قدیم تعلیم کی اہمیت
آج کے اس تیز رفتار اور ٹیکنالوجی سے بھرپور دور میں، کچھ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ قدیم تعلیمات کی کیا اہمیت رہ گئی ہے۔ مگر میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ قدیم حکمت عملی آج بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی پہلے تھی۔ میں نے جب بھی کسی پریشانی کا سامنا کیا ہے، تو اکثر مجھے اپنے بڑوں کی باتوں یا قدیم فلسفے میں اس کا حل مل جاتا ہے۔ قدیم ہندو مت کی تعلیمات ہمیں صرف تاریخ نہیں بتاتیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک مکمل طریقہ فراہم کرتی ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ کیسے ہم روحانی سکون حاصل کر سکتے ہیں، اندرونی امن کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور ایک مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس مصروف دنیا میں جہاں ہر شخص ذہنی دباؤ کا شکار نظر آتا ہے، قدیم یوگا اور مراقبہ کی تکنیکیں ہمیں ذہنی سکون فراہم کر سکتی ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ سمجھانا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ثقافت اور ورثے سے بھی جڑے رہیں تاکہ وہ ایک متوازن شخصیت کے مالک بن سکیں۔
صحت اور تعلیم کا گہرا تعلق
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ تندرست جسم میں ہی تندرست دماغ رہتا ہے۔ ہندو مت کی تعلیمات میں صحت کو ہمیشہ بہت اہمیت دی گئی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ہمارے بزرگ آج بھی صحت مند رہنے کے لیے یوگا اور آیورویدک طریقہ علاج پر عمل کرتے ہیں۔ آیوروید، جو کہ قدیم ہندوستان کا طبی نظام ہے، ہمیں صرف بیماریوں کا علاج نہیں سکھاتا بلکہ صحت مند زندگی گزارنے کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ اس میں متوازن غذا، ورزش اور ذہنی سکون پر زور دیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ اگر ہم اپنی تعلیم میں جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی شامل کریں تو ہماری نئی نسل زیادہ کامیاب اور خوشحال ہوگی۔ آج کل کے بچے صرف اسکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں، انہیں یہ سمجھانا بہت ضروری ہے کہ جسمانی سرگرمیاں بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی ذہنی تعلیم۔
روحانیت اور ذہنی سکون
آج کے دور میں جب ہر طرف مادی ترقی کی دوڑ لگی ہے، لوگ ذہنی سکون کی تلاش میں ہیں۔ ہندو مت کی تعلیمات ہمیں روحانیت کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کرنے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ یوگا، مراقبہ اور منتروں کا ورد ہمیں اپنے اندر کی دنیا سے جڑنے میں مدد دیتا ہے۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ جب آپ ذہنی طور پر پرسکون ہوتے ہیں تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے پڑھائی کر سکتے ہیں اور کام بھی کر سکتے ہیں۔ یہ صرف ایک مذہبی عمل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سائنسی طریقہ ہے جو آپ کے دماغ کو پرسکون کرتا ہے اور آپ کی توجہ کو بڑھاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسکولوں میں بھی بچوں کو ذہنی سکون کے لیے کچھ وقت دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے سکیں۔
مختلف شعبوں میں علم کا وسیع دائرہ
میرے پیارے پڑھنے والو! ہندو مت میں علم کا دائرہ صرف مذہبی کتب تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں زندگی کے ہر شعبے کو شامل کیا گیا تھا۔ میں نے جب مختلف تاریخی کتب کا مطالعہ کیا تو یہ جان کر حیران رہ گیا کہ قدیم ہندوستان میں سائنس، ریاضی، فلکیات، طب اور فنون لطیفہ میں بھی حیرت انگیز ترقی کی گئی تھی۔ آج ہم جن تصورات کو جدید سمجھتے ہیں، وہ ہزاروں سال پہلے ہی ہمارے اجداد نے دریافت کر لیے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مت نے ہمیشہ علم کی ہر شکل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ اگر کوئی مذہب علم کے حصول کی حوصلہ افزائی کرے تو وہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ آج بھی ہم ان علوم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خزانہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔
ریاضی اور فلکیات میں کمال
کیا آپ جانتے ہیں کہ صفر کا تصور، جس کے بغیر آج کی ریاضی نامکمل ہے، قدیم ہندوستان میں ہی ایجاد ہوا تھا؟ میں جب اس بارے میں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت فخر ہوتا ہے۔ آریہ بھٹہ، بھاسکراچاریہ جیسے عظیم ریاضی دانوں نے اس میدان میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے۔ اسی طرح، فلکیات میں بھی ہندوستانی ماہرین نے ستاروں اور سیاروں کے بارے میں گہرا علم حاصل کیا تھا۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ قدیم ہندوستانی کیلنڈر آج بھی اپنی درستگی کی وجہ سے قابل اعتبار مانا جاتا ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے اجداد نے صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں بلکہ سائنسی علوم میں بھی مہارت حاصل کی تھی۔ میں نے خود جب ایک قدیم مندر میں فلکیاتی نقش و نگار دیکھے تو مجھے یہ احساس ہوا کہ ہمارے پرانے لوگ کتنے ذہین اور علم دوست تھے۔
طب اور فنون لطیفہ کی ترقی
آیوروید، جو کہ قدیم ہندوستانی طب کا نظام ہے، آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہے۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو ایلوپیتھک علاج کے ساتھ ساتھ آیورویدک ادویات بھی استعمال کرتے ہیں۔ چرکا اور سشروتا جیسے عظیم طبیبوں نے انسانی جسم، بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں گہرا علم فراہم کیا۔ سشروتا کو سرجری کا باپ مانا جاتا ہے۔ اسی طرح، فنون لطیفہ، جیسے کہ موسیقی، رقص اور مجسمہ سازی، میں بھی ہندو مت کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ مندروں کی خوبصورت نقاشی اور مجسمے اس کی زندہ مثال ہیں۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ فنون لطیفہ ہمیں زندگی کی خوبصورتی کا احساس دلاتے ہیں اور ہماری روح کو تسکین بخشتے ہیں۔
| علم کا شعبہ | اہمیت | قدیم ہندوستانی ترقی |
|---|---|---|
| دھرم شاستر | اخلاقی اور سماجی قوانین | منو سمرتی، یاگیہ والکیہ سمرتی |
| ارتھ شاستر | معاشیات اور سیاست | کوتلیہ کا ارتھ شاستر |
| کام شاستر | انسانی رشتے اور جمالیات | واتس یان کا کام سوتر |
| آیوروید | طب اور صحت | چرکا سمیتا، سشروتا سمیتا |
| جیوتیش (فلکیات) | ستاروں اور سیاروں کا علم | آریہ بھٹہ کا سوریا سدھانتا |
خواتین کی تعلیم اور اس کا ارتقاء

میرے دوستو، جب ہم قدیم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اس وقت خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی؟ میں نے جب اس پہلو پر غور کیا تو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہندو مت میں خواتین کی تعلیم کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ ہاں، کچھ ادوار میں مشکلات ضرور آئیں، لیکن ابتدائی ویدک دور میں خواتین کو مردوں کے برابر تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل تھا۔ میں نے ایسی کئی عظیم خواتین کے بارے میں پڑھا ہے جیسے گارگی اور میتریئی، جو بہت بڑی عالمہ اور فلسفی تھیں۔ یہ دونوں اپنے وقت کے عظیم دانشوروں سے مباحثے کرتی تھیں اور انہیں اپنی ذہانت سے متاثر کرتی تھیں۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے خواتین کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کو روشن کرتی ہے۔
ویدک دور کی عالمہ خواتین
ویدک دور میں ایسی خواتین کی بہتات تھی جنہوں نے علم کے میدان میں نام کمایا۔ اپالا، وشواوارا، گھوشا جیسی رشی خواتین نے ویدک بھجنوں کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ علم کے حصول میں جنس کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ان خواتین کو ‘برہموادنی’ کہا جاتا تھا، یعنی وہ جو ویدوں کا علم رکھتی ہوں۔ یہ تو واقعی حیران کن ہے کہ ہزاروں سال پہلے ہمارے معاشرے میں خواتین کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ وہ نہ صرف تعلیم حاصل کر سکیں بلکہ خود بھی علم کا ذریعہ بنیں۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جس پر ہمیں فخر محسوس کرنا چاہیے۔
جدید دور میں چیلنجز اور مواقع
آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر ہمارے خطے میں۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اب بہت سی فیملیز اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک پورا خاندان سنوارتی ہے۔ جب میں اپنی بیٹی کو اسکول جاتے دیکھتا ہوں تو مجھے امید ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم سے بہت سی زندگیاں روشن کرے گی۔ ہندو مت کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ دیوی سرسوتی، جو علم کی دیوی ہیں، ایک عورت ہیں۔ یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ علم کا منبع نسائی توانائی میں پوشیدہ ہے۔
روحانیت اور علمی ارتقاء
میرے دوستو، ہندو مت میں علم کا حصول صرف دنیاوی معاملات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک گہرا تعلق روحانیت اور ذاتی ارتقاء سے بھی ہے۔ میں نے خود اپنی زندگی میں یہ محسوس کیا ہے کہ جب آپ روحانی طور پر مضبوط ہوتے ہیں تو آپ کی سوچ میں بھی گہرائی اور پختگی آتی ہے۔ تعلیم کا حتمی مقصد ‘موکش’ یا نجات حاصل کرنا ہے، یعنی زندگی اور موت کے چکر سے آزادی۔ یہ وہ بلند ترین مقصد ہے جسے حاصل کرنے کے لیے علم کو ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر ہماری تعلیم میں روحانی اقدار کو شامل کیا جائے تو یہ ہمیں صرف کامیاب ہی نہیں بلکہ ایک پرامن اور مطمئن زندگی گزارنے میں بھی مدد دے گی۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو اپنی حقیقت کو سمجھنے کی طرف لے جاتا ہے۔
یوگا اور مراقبہ: اندرونی علم کا ذریعہ
یوگا اور مراقبہ صرف جسمانی ورزشیں نہیں ہیں، بلکہ یہ روحانی ارتقاء کے طاقتور ذریعے ہیں۔ میں نے خود کئی بار مراقبہ کی مشق کی ہے اور اس سے مجھے بہت ذہنی سکون اور اندرونی قوت ملی ہے۔ ہندو مت کی تعلیمات میں یوگا کو علم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے، کیونکہ یہ دماغ کو پرسکون کرتا ہے اور توجہ کو بڑھاتا ہے۔ جب آپ کا دماغ پرسکون ہوتا ہے تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے علم کو جذب کر سکتے ہیں اور اسے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو آپ کو اپنے اندر کی دنیا سے جوڑتا ہے اور آپ کو اپنی اصل صلاحیتوں کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔ میرے خیال میں آج کی تیز رفتار زندگی میں یوگا اور مراقبہ ہماری ذہنی صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔
گیان مارگ: علم کے ذریعے نجات
ہندو مت میں نجات حاصل کرنے کے کئی راستے بتائے گئے ہیں، جن میں سے ایک ‘گیان مارگ’ ہے، یعنی علم کے ذریعے نجات۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں انسان سچے علم کے حصول کے ذریعے اپنی جہالت کو دور کرتا ہے اور حقیقت کو پہچانتا ہے۔ میں نے جب بھی گیتا کا مطالعہ کیا ہے، تو یہ محسوس کیا ہے کہ اس میں علم کی کتنی عظمت بیان کی گئی ہے۔ بھگوان کرشنا نے ارجن کو یہ سکھایا کہ صحیح علم ہی انسان کو بندھنوں سے آزادی دلاتا ہے۔ یہ صرف کتابی علم نہیں بلکہ وہ روحانی بصیرت ہے جو انسان کو خود کو اور کائنات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت گہرا فلسفہ ہے جو ہمیں زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
글을 마치며
میرے عزیز دوستو، علم کی یہ خوبصورت اور گہری بحث واقعی بہت دلفریب رہی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بھی میرے ساتھ یہ محسوس کیا ہوگا کہ قدیم ہندوستان میں علم کو صرف معلومات کے ذخیرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا، بلکہ اسے زندگی کے ہر شعبے میں روشنی پھیلانے والا ایک مقدس ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنے شاندار ماضی سے سبق سیکھیں اور اپنے آج کو بہتر بنائیں۔ اگر ہم آج بھی اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ علم صرف کامیابی کی سیڑھی نہیں بلکہ شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہے، تو ہم ایک زیادہ متوازن اور خوشحال نسل تیار کر سکتے ہیں۔
알아두면 쓸모 있는 정보
1. قدیم ہندوستانی نظامِ تعلیم میں گروکل ایک اہم مرکز تھے جہاں طلباء گرو کے ساتھ رہ کر جامع علم حاصل کرتے تھے۔ یہ محض پڑھائی نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا عملی تجربہ تھا۔
2. تکشاشیلہ اور نالندہ جیسی یونیورسٹیاں ہزاروں سال پہلے علم و حکمت کے عالمی مینار تھے، جہاں دنیا بھر سے طلباء مختلف علوم سیکھنے آتے تھے۔
3. ہندو مت میں گرو کا مقام والدین سے بھی بلند سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ روحانی اور فکری رہنمائی فراہم کرتا ہے جو انسان کو حقیقی راستہ دکھاتی ہے۔
4. یوگا اور مراقبہ جیسی قدیم تکنیکیں آج بھی ذہنی سکون اور روحانی ترقی کے لیے انتہائی موثر ہیں، اور یہ ہماری تعلیم کا حصہ ہونی چاہییں۔
5. صفر کا تصور اور آیوروید جیسے طبی نظام قدیم ہندوستان کی دین ہیں، جو آج بھی دنیا بھر میں سائنسی اور عملی طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔
중요 사항 정리
اس پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ قدیم ہندوستان میں علم کو ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا جہاں استاد اور شاگرد کا رشتہ محبت، احترام اور روحانیت پر مبنی ہوتا تھا۔ تعلیم کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ ایک مکمل اور بااخلاق انسان بنانا تھا۔ دھرم، اخلاقی اقدار اور سماجی ذمہ داریوں کو علم کے ساتھ گہرا جوڑا جاتا تھا۔ آج کے دور میں بھی ہمیں قدیم تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ہم نہ صرف علمی بلکہ روحانی طور پر بھی ارتقاء حاصل کر سکیں۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: ہندو مت میں تعلیم کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی بنیادی اہمیت کیا ہے؟
ج: میرے پیارے دوستو، ہندو مت میں تعلیم کو صرف کتابی علم تک محدود نہیں سمجھا جاتا، بلکہ یہ ایک روحانی سفر ہے جو انسان کو اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، یہ صرف اسکول یا کالج کی ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل انسانیت کی تعمیر کا عمل ہے۔ ویدوں میں بھی علم کو روشنی اور جہالت کو تاریکی سے تشبیہ دی گئی ہے، یعنی تعلیم ہمیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہے کہ کیسے یہ تعلیمات لوگوں کو نہ صرف اچھا انسان بناتی ہیں بلکہ انہیں معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہیں۔ یہ علم حاصل کرنے کا عمل ہمیں سچائی، نیکی اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندو مت میں تعلیم کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی حاصل کرنا نہیں، بلکہ انسان کو روحانی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا بھی ہے۔
س: جدید دور میں ہندو مت کی تعلیمات بچوں کی پرورش اور اخلاقی تربیت میں کیسے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں؟
ج: یہ سوال آج کے والدین کے لیے بہت اہم ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب میرے اور آپ جیسے لوگوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہندو مت کی تعلیمات جدید دور میں بھی بچوں کی پرورش اور اخلاقی تربیت میں غیر معمولی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایسی فیملیز کو دیکھا ہے جو اپنے بچوں کو بھگوت گیتا اور رامائن کی کہانیاں سنا کر انہیں سچائی، ایمانداری، اور دوسروں کا احترام کرنا سکھاتی ہیں۔ یہ کہانیاں صرف قصے کہانیاں نہیں ہوتیں بلکہ ان میں زندگی کے بڑے بڑے سبق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جب ہم بچوں کو ان کی ثقافت اور روایات سے جوڑتے ہیں، تو وہ ایک مضبوط اخلاقی ڈھانچے کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ آج کل جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا طوفان ہے، بچوں کو صحیح اور غلط میں فرق سکھانا بہت ضروری ہے۔ ہندو مت کی تعلیمات، جیسے کرما کا اصول (جو بوؤ گے وہی کاٹو گے)، بچوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے اور انہیں اچھا شہری بننے کی ترغیب دیتا ہے۔
س: ہندو مت کے کون سے ایسے اہم فلسفے ہیں جو آج کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی کامیابی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں؟
ج: اوہ، یہ تو بہت ہی دلچسپ سوال ہے اور میرے خیال میں آج کے نوجوانوں کے لیے اس کا جواب جاننا بے حد ضروری ہے۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بارہا محسوس کیا ہے کہ ہندو مت کے فلسفے صرف مذہبی رسومات تک محدود نہیں بلکہ یہ عملی زندگی میں بھی ہمیں کامیاب بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کرما یوگا کا فلسفہ، جو کہتا ہے کہ اپنا کام ایمانداری اور لگن سے کرو اور پھل کی فکر نہ کرو، یہ آج بھی ہر شعبے میں لاگو ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے کام پر پوری توجہ دیتے ہیں اور بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں، تو کامیابی خود ہمارے قدم چومتی ہے۔ اسی طرح، ‘سیوا’ یعنی دوسروں کی خدمت کا تصور ہمیں ٹیم ورک اور اجتماعی مقاصد کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ جب لوگ اپنے کام کو صرف نوکری نہیں بلکہ ایک خدمت سمجھتے ہیں، تو وہ زیادہ مطمئن اور کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ فلسفے ہمیں چیلنجز کا مقابلہ ہمت سے کرنے، ناکامیوں سے سیکھنے اور مسلسل بہتر ہونے کا درس دیتے ہیں۔ یعنی یہ صرف روحانی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ ترقی کے لیے بھی ایک بہترین رہنما اصول ہیں۔






