اہلِ بلاگ، میرے پیارے دوستو! کیا کبھی آپ نے کسی ایسی جگہ کا تصور کیا ہے جہاں وقت تھم جاتا ہو، جہاں ہر گلی، ہر گھاٹ ایک نئی کہانی سناتا ہو؟ جب میں نے پہلی بار بنارس کے مقدس شہر میں قدم رکھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے صدیوں پرانی روحانیت نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا ہو۔ گنگا کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے، صبح کے دھندلکے میں پوجا پاٹ کے نغمے سن کر، میں نے جو سکون اور اطمینان محسوس کیا، وہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ صرف ایک شہر نہیں، بلکہ ایک جیتا جاگتا تجربہ ہے، جہاں زندگی اور موت، قدیم روایت اور جدید سوچ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے یہاں کے لوگ ہر لمحے کو پوری طرح جیتے ہیں، اور یہی بات اس شہر کو دنیا بھر میں سب سے منفرد بناتی ہے۔ آیئے، اس پر اسرار اور خوبصورت شہر کی ہر تفصیل کو بالکل نئے انداز میں جانتے ہیں!
گنگا کے گھاٹ: روح کی تسکین کا سفر

میرے دوستو، بنارس کا ذکر ہو اور گنگا کے گھاٹوں کا خیال نہ آئے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جب میں پہلی بار دشاشومیدھ گھاٹ پر پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے میں کسی اور دنیا میں آ گیا ہوں۔ صبح سویرے کی وہ ٹھنڈی ہوا، پجاریوں کی سریلی آوازیں جو منتر پڑھ رہے تھے، اور وہ سینکڑوں لوگ جو اپنی آنکھوں میں عقیدت کا سمندر لیے گنگا میں ڈبکی لگا رہے تھے – یہ سارا منظر کسی فلمی شوٹ سے کم نہیں تھا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے لوگ یہاں زندگی کے ہر دکھ کو گنگا میا کے قدموں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر گھاٹ کی اپنی ایک الگ کہانی ہے، اپنا ایک مخصوص رنگ ہے۔ میں نے سچ بتاؤں تو گھنٹوں وہیں بیٹھا رہا، صرف لوگوں کو آتے جاتے، پوجا کرتے اور اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارتے دیکھتا رہا۔ یہ صرف پتھر کے سیڑھیاں نہیں ہیں، یہ روح کو سکون بخشنے والے وہ مقام ہیں جہاں آپ کو خود سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے ایک چھوٹے سے بچے کو اپنے والد کے ساتھ مل کر دیا جلایا اور اسے گنگا میں بہایا۔ اس کے چہرے پر جو معصومیت اور امید تھی، وہ میرے دل میں اتر گئی۔ یہ تجربہ لفظوں سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔
دشاشومیدھ گھاٹ: مرکزِ عقیدت
دشاشومیدھ گھاٹ بنارس کا سب سے مشہور گھاٹ ہے، جہاں شام کو ہونے والی گنگا آرتی دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ میں نے اس آرتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یقین کریں، وہ منظر زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ جب سینکڑوں دیے ایک ساتھ جلتے ہیں اور ان کی روشنی گنگا کے پانی پر جھلملاتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے آسمان زمین پر اتر آیا ہو۔ اس کی روحانیت اور جادوئی کشش کسی بھی مذہب کے شخص کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ پجاریوں کے ہاتھوں میں وہ آگ کے شعلے، گھنٹیوں کی آواز، اور ہزاروں لوگوں کی دعا—یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جو آپ کو اندر تک جھنجھوڑ دیتا ہے۔
اسی گھاٹ: صبح کی خاموشی
اسی گھاٹ، بنارس کے سب سے جنوبی گھاٹوں میں سے ایک ہے، جو اپنی پرسکون فضا کے لیے جانا جاتا ہے۔ جب میں وہاں صبح سویرے چہل قدمی کر رہا تھا تو مجھے مکمل خاموشی ملی، صرف گنگا کی لہروں کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ۔ یہاں سیاحوں کے ہجوم سے زیادہ مقامی لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی صبح کی پوجا اور غسل کے لیے آتے ہیں۔ مجھے وہاں بیٹھ کر کتاب پڑھنے کا جو مزا آیا، وہ کسی اور جگہ نہیں ملا۔ اسی گھاٹ کی اپنی ایک الگ ہی خوبصورمتی ہے، جہاں آپ کو حقیقی بنارس کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔
بنارسی پکوان: ذائقوں کی دنیا
اوہ میرے اللہ! بنارس کے کھانے کی تو کیا ہی بات ہے۔ اگر آپ کھانے کے شوقین ہیں تو یہ شہر آپ کے لیے جنت سے کم نہیں۔ میں نے تو یہاں آ کر اپنا ڈائٹ پلان بالکل بھول ہی گیا۔ گلاب جامن سے لے کر چاٹ تک، ہر چیز میں ایک منفرد ذائقہ ہے۔ میں نے بازار کی گلیوں میں گھومتے ہوئے لکڑی کے چولہے پر بنتے ہوئے لسی کو دیکھا، اور جب ایک گھونٹ پیا تو ایسا لگا جیسے سارے دن کی تھکن اتر گئی۔ مقامی مصالحوں کا استعمال اور کھانا بنانے کا روایتی انداز، یہ سب مل کر بنارسی پکوان کو واقعی خاص بنا دیتے ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں کو فون پر بتایا کہ یہاں کے کھانے کا جو مزہ ہے، وہ میں تمہیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، تمہیں خود آ کر چکھنا ہو گا۔
کچوری گلی اور چاٹ کا جادو
کچوری گلی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، کچوریوں کی جنت ہے۔ مجھے وہاں گرم گرم کچوریاں اور جلیبیاں کھانے کا موقع ملا۔ وہاں کی چاٹ اور ٹکی بھی اتنی مزیدار تھی کہ میں نے ایک ہی بیٹھک میں دو پلیٹیں صاف کر دیں۔ یہ صرف کھانے کی چیزیں نہیں ہیں، یہ بنارس کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں، جہاں لوگ شام کو مل بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے ان لذیز چیزوں کا مزہ لیتے ہیں۔
بنارسی لسی اور پان کا ذائقہ
بنارسی لسی کے تو کیا ہی کہنے! یہ صرف لسی نہیں، بلکہ ایک مکمل تجربہ ہے۔ مٹی کے کلہڑ میں ٹھنڈی ٹھنڈی، گاڑھی لسی جس پر بالائی کی ایک موٹی تہہ جمی ہو، اور اوپر سے پستے اور بادام کی گارنش – اوہ ہو!
مجھے یقین ہے کہ ایسی لسی آپ نے زندگی میں کبھی نہیں پی ہو گی۔ اور ہاں، بنارسی پان کا ذکر نہ کرنا تو گناہ ہو گا۔ کھانے کے بعد ایک پتے پر کتھے، چونا، سونف اور گلقند کے ساتھ لپٹا ہوا پان، یہ صرف منہ کا ذائقہ ہی نہیں بدلتا بلکہ آپ کو ایک خوشگوار احساس دیتا ہے۔
قدیم مندر اور روحانی طاقت
بنارس کو مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اور میں نے یہاں ہر گلی، ہر محلے میں چھوٹے بڑے مندر دیکھے ہیں۔ ہر مندر کی اپنی ایک تاریخی اور روحانی اہمیت ہے۔ مجھے وشوناتھ مندر کی وہ عظمت اور روحانی کشش آج بھی یاد ہے۔ وہاں جا کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہوں، جہاں سکون ہی سکون ہے۔ پوجا پاٹ کی آوازیں، گھنٹیوں کی گونج اور ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی ایک ایسا ماحول بناتی ہے جو آپ کو روحانی طور پر مضبوط کرتا ہے۔ میں نے وہاں لوگوں کو اپنی آنکھوں سے پوجا کرتے اور ان کے چہروں پر اطمینان دیکھا ہے۔ یہ صرف پتھر کی عمارتیں نہیں ہیں، یہ صدیوں پرانی تاریخ اور عقیدت کی گواہ ہیں۔
کاشی وشوناتھ مندر: ایمان کا مرکز
کاشی وشوناتھ مندر بنارس کا سب سے اہم اور مقدس مندر ہے۔ جب میں نے اس مندر کے اندر قدم رکھا تو مجھے ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ اس کی خوبصورتی، اس کا فن تعمیر، اور وہاں کا روحانی ماحول — سب کچھ ہی دل کو چھو جانے والا ہے۔ میں نے وہاں کے پجاریوں سے مندر کی تاریخ کے بارے میں سنا تو حیران رہ گیا کہ کیسے اس مندر نے اتنی صدیوں کو اپنی آغوش میں سمویا ہوا ہے۔
درگا مندر اور سنکٹ موچن ہنومان مندر
درگا مندر، جسے لال مندر بھی کہا جاتا ہے، اپنی منفرد طرزِ تعمیر اور سرخ رنگت کی وجہ سے توجہ کا مرکز ہے۔ وہاں کی پرسکون فضا اور عقیدت مندوں کا ہجوم مجھے بہت بھایا۔ اس کے بعد میں سنکٹ موچن ہنومان مندر بھی گیا، جو ہنومان جی کو وقف ہے۔ وہاں جا کر ایک عجیب سی مثبت توانائی محسوس ہوتی ہے، اور مجھے ایسا لگا جیسے میری ساری پریشانیاں دور ہو گئیں۔
بنارس کی گلیاں: جہاں وقت رک جاتا ہے
بنارس کی تنگ گلیاں – ارے واہ! یہ تو خود ایک الگ ہی دنیا ہیں۔ مجھے شروع میں تو لگا کہ میں ان بھول بھلیوں میں گم ہو جاؤں گا، لیکن پھر میں نے اس کے اندر چھپی خوبصورتی کو دریافت کیا۔ یہ گلیاں دراصل شہر کی زندگی کی نبض ہیں۔ یہاں آپ کو ہر قسم کے لوگ، ہر طرح کی دکانیں، اور ہر طرح کے رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ میں نے ان گلیوں میں گھومتے ہوئے چھوٹے چھوٹے مندر دیکھے، صدیوں پرانی عمارتیں دیکھیں جن کی دیواروں پر تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ یہ گلیاں صرف راستے نہیں ہیں، یہ ایک زندہ تاریخ ہیں جہاں ہر پتھر ایک کہانی سناتا ہے۔ میں نے خود وہاں ایک چائے والے سے بات کی جو 40 سال سے اسی گلی میں چائے بنا رہا تھا، اور اس کی کہانیوں میں بنارس کی روح جھلکتی تھی۔
شادی کی گلیاں اور دستکاری کی دکانیں
بنارس کی کچھ گلیاں ایسی ہیں جو خاص طور پر شادی کی تیاریوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہاں آپ کو دلہن کے جوڑے، زیورات، اور شادی سے متعلق ہر چیز مل جائے گی۔ میں نے وہاں بنارسی ساڑیوں کی دکانوں پر خاصی دیر گزاری، اور ان کے رنگوں اور ڈیزائینز کو دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ہاتھ سے بنی ہوئی یہ ساڑیاں واقعی فن کا ایک شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ، چھوٹی چھوٹی دکانوں پر لکڑی کے کھلونے، پیتل کے برتن اور دوسرے دستکاری کے نمونے دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ یہاں کے کاریگروں کے ہاتھوں میں کتنا ہنر ہے۔
سڑک کنارے کی زندگی اور مقامی رنگ
ان گلیوں میں زندگی کی دھڑکن محسوس ہوتی ہے۔ سڑک کنارے بیٹھ کر چائے پینے والے لوگ، اخبار پڑھتے بزرگ، اور کھیلتے ہوئے بچے – یہ سب مل کر بنارس کو ایک زندہ دل شہر بناتے ہیں۔ مجھے وہاں ایک چھوٹے سے تھڑے پر بیٹھ کر لوگوں کو آتے جاتے دیکھنے میں جو سکون ملا، وہ کسی مہنگے ریسٹورنٹ میں نہیں ملا۔ یہیں سے آپ کو اصلی بنارس کے لوگوں اور ان کے طرزِ زندگی کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
صبح کا سورج اور شام کی آرتی: بنارس کا دل
بنارس کا ایک اور حسین پہلو یہاں کی صبح اور شام کا منظر ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ صبح سورج کی پہلی کرنیں جب گنگا کے پانی پر پڑتی ہیں تو پورا منظر ایک روحانی چمک سے بھر جاتا ہے۔ اس وقت گھاٹوں پر موجود لوگ، پوجا پاٹ کرتے پجاری، اور کشتیوں میں بیٹھے سیاح – یہ سب ایک ایسے ماحول کا حصہ بنتے ہیں جو انسان کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اور پھر شام کی گنگا آرتی!
اس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں، لیکن اس کا جادو ایسا ہے کہ بار بار ذکر کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یہ صرف ایک رسم نہیں، یہ بنارس کی روح ہے، اس کا دھڑکتا دل ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ دو اوقات ہی ہیں جب بنارس اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔
گنگا کی کشتی سیر: ایک لازمی تجربہ
جب میں بنارس میں تھا تو میں نے صبح سویرے گنگا میں کشتی کی سیر کی۔ ملاح نے مجھے ایک ایک گھاٹ کے بارے میں بتایا اور اس کی کہانیاں سنائیں۔ گنگا کے درمیان سے گھاٹوں کا منظر دیکھنا ایک بالکل ہی مختلف تجربہ تھا۔ صبح کی وہ ٹھنڈی ہوا، پرندوں کی آوازیں، اور پرسکون پانی – یہ سب مل کر ایک ناقابل فراموش یاد بن گئے۔ میں آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ بنارس آئیں تو کشتی کی سیر ضرور کریں۔
آرتی کے بعد کی خاموشی
آرتی کے بعد گھاٹ پر ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے۔ وہ خاموشی جو ہزاروں آوازوں کے بعد آتی ہے۔ اس وقت بیٹھ کر گنگا کی لہروں کو دیکھنا اور اپنے اندر کے سکون کو محسوس کرنا ایک بہت ہی روحانی تجربہ ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ آرتی کے بعد بھی کافی دیر تک گھاٹوں پر بیٹھے رہتے ہیں، شاید اسی سکون کو محسوس کرنے کے لیے جو اس شہر کی فضا میں رچا بسا ہے۔
بنارسی ریشم اور دستکاری: فن کا شاہکار
بنارس صرف روحانیت کا مرکز نہیں، یہ فن اور ہنر کا بھی گڑھ ہے۔ میں نے جب بنارسی ساڑیوں کی دکانوں کا رخ کیا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ چمکتی دمکتی ریشمی ساڑیاں، جن پر ہاتھ سے کی گئی کڑھائی اور بنائی کا کام ہوتا ہے، واقعی قابل دید ہیں۔ یہ صرف کپڑے نہیں، بلکہ یہ محنت، ہنر اور صدیوں پرانی روایت کا حسین امتزاج ہیں۔ مجھے وہاں کے کاریگروں سے ملنے کا موقع ملا جو نسل در نسل یہ فن منتقل کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر اپنے کام کا فخر صاف جھلکتا تھا، اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ کیوں بنارسی ساڑیاں دنیا بھر میں اتنی مشہور ہیں۔
بنارسی ساڑیاں: ہر دلعزیز تحفہ
بنارسی ساڑیوں کی بنائی کا فن بہت ہی قدیم اور پیچیدہ ہے۔ ہر ساڑی کو بنانے میں ہفتے یا مہینے لگ جاتے ہیں۔ میں نے جب ایک کاریگر کو ساڑی بناتے دیکھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتنی محنت کا کام ہے۔ ان کے ہاتھ اتنی تیزی سے تاروں کے درمیان چل رہے تھے کہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ یہ ساڑیاں صرف خواتین کے لیے کپڑا نہیں، بلکہ یہ ایک روایتی پہچان ہیں، اور خاص مواقع پر پہنی جاتی ہیں۔ مجھے خود ایک ساڑی خریدنے کی خواہش ہوئی تاکہ میں اس ہنر کو اپنے ساتھ یادگار کے طور پر لے جا سکوں۔
پیتل کے برتن اور لکڑی کے کھلونے
بنارس میں ریشم کے علاوہ بھی کئی قسم کی دستکاری موجود ہے۔ میں نے بازاروں میں پیتل کے چمکتے ہوئے برتن دیکھے جن پر خوبصورت نقاشی کی گئی تھی۔ یہ برتن گھر کی سجاوٹ کے لیے بہترین تھے۔ اس کے علاوہ، مجھے لکڑی کے رنگ برنگے کھلونے بھی بہت پسند آئے جو خاص طور پر بچوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ بنارس صرف مندروں اور گھاٹوں کا شہر نہیں، بلکہ یہ فن اور ہنر کا بھی ایک بہترین مرکز ہے۔ میں نے کچھ چھوٹے چھوٹے کھلونے اپنے بھتیجوں کے لیے خریدے، اور مجھے یقین ہے کہ انہیں یہ بہت پسند آئیں گے۔
| خصوصیت | تفصیل | میرا تجربہ/مشورہ |
|---|---|---|
| گھاٹ کی سیر | گنگا کے کنارے مختلف گھاٹ اور ان کی روحانی اہمیت۔ | صبح سویرے کشتی میں بیٹھ کر گھاٹوں کا نظارہ کرنا نہ بھولیں۔ یہ سکون بخشتا ہے۔ |
| کھانا پینا | بنارسی چاٹ، لسی، کچوری، اور مشہور پان۔ | مقامی کھانوں کا بھرپور مزہ لیں، خاص کر کچوری گلی کی چاٹ اور لسی تو لازمی ہے۔ |
| مندر | کاشی وشوناتھ، درگا مندر اور سنکٹ موچن ہنومان مندر۔ | وشوناتھ مندر کی روحانیت آپ کو اندر تک محسوس ہوگی، ضرور جائیں۔ |
| بنارسی ساڑیاں | ہاتھ سے بنی ریشمی ساڑیاں اور دستکاری کا ہنر۔ | خوبصورت ساڑیاں اور دیگر دستکاری کی اشیاء خریدنا ایک بہترین یادگار ہے۔ |
زندگی اور موت کا فلسفہ: ایک منفرد نظریہ
بنارس کو کئی بار زندگی اور موت کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دھڑکتی ہے اور موت کو بھی ایک الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ میں نے وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کیسے وہ زندگی کی تلخیوں کو قبول کرتے ہیں اور موت کو بھی ایک قدرتی عمل مانتے ہیں۔ یہ فلسفہ مجھے بہت متاثر کر گیا۔ منیکرنیکا گھاٹ پر جب میں گیا تو وہاں کی فضا کافی پرسکون تھی، لوگ اپنے پیاروں کے آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ زندگی کی حقیقت اور فانی پن کو محسوس کرتے ہیں۔ مجھے وہاں جا کر ایسا لگا جیسے میں خود کو اور زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہا ہوں۔
منیکرنیکا گھاٹ: اختتام اور آغاز
منیکرنیکا گھاٹ بنارس کے سب سے اہم گھاٹوں میں سے ایک ہے، خاص طور پر ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے۔ یہاں لوگوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ مجھے یہاں جا کر ایک عجیب سی روحانیت محسوس ہوئی۔ یہ جگہ آپ کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے اور یہ احساس دلاتی ہے کہ زندگی ایک مستقل بہاؤ ہے، جس میں اختتام بھی ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہاں لوگ غمگین تو تھے، لیکن ان کے چہروں پر ایک سکون بھی تھا، شاید اس یقین کی وجہ سے کہ ان کے پیارے کو موکش مل گیا ہے۔
بنارسی ثقافت میں موت کا مقام
بنارسی ثقافت میں موت کو اختتام نہیں بلکہ زندگی کے سفر کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ بنارس میں مرنے والے کو موکش حاصل ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ مجھے بہت منفرد لگا۔ میں نے اس بارے میں مقامی لوگوں سے بات کی، اور ان کے خیالات نے میرے اپنے تصورات کو بہت حد تک بدل دیا۔ یہ شہر آپ کو صرف جگہیں نہیں دکھاتا، بلکہ زندگی کے گہرے فلسفے سے بھی متعارف کراتا ہے۔
گنگا کے گھاٹ: روح کی تسکین کا سفر
میرے دوستو، بنارس کا ذکر ہو اور گنگا کے گھاٹوں کا خیال نہ آئے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جب میں پہلی بار دشاشومیدھ گھاٹ پر پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے میں کسی اور دنیا میں آ گیا ہوں۔ صبح سویرے کی وہ ٹھنڈی ہوا، پجاریوں کی سریلی آوازیں جو منتر پڑھ رہے تھے، اور وہ سینکڑوں لوگ جو اپنی آنکھوں میں عقیدت کا سمندر لیے گنگا میں ڈبکی لگا رہے تھے – یہ سارا منظر کسی فلمی شوٹ سے کم نہیں تھا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے لوگ یہاں زندگی کے ہر دکھ کو گنگا میا کے قدموں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر گھاٹ کی اپنی ایک الگ کہانی ہے، اپنا ایک مخصوص رنگ ہے۔ میں نے سچ بتاؤں تو گھنٹوں وہیں بیٹھا رہا، صرف لوگوں کو آتے جاتے، پوجا کرتے اور اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارتے دیکھتا رہا۔ یہ صرف پتھر کے سیڑھیاں نہیں ہیں، یہ روح کو سکون بخشنے والے وہ مقام ہیں جہاں آپ کو خود سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے ایک چھوٹے سے بچے کو اپنے والد کے ساتھ مل کر دیا جلایا اور اسے گنگا میں بہایا۔ اس کے چہرے پر جو معصومیت اور امید تھی، وہ میرے دل میں اتر گئی۔ یہ تجربہ لفظوں سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔
دشاشومیدھ گھاٹ: مرکزِ عقیدت
دشاشومیدھ گھاٹ بنارس کا سب سے مشہور گھاٹ ہے، جہاں شام کو ہونے والی گنگا آرتی دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ میں نے اس آرتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یقین کریں، وہ منظر زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ جب سینکڑوں دیے ایک ساتھ جلتے ہیں اور ان کی روشنی گنگا کے پانی پر جھلملاتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے آسمان زمین پر اتر آیا ہو۔ اس کی روحانیت اور جادوئی کشش کسی بھی مذہب کے شخص کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ پجاریوں کے ہاتھوں میں وہ آگ کے شعلے، گھنٹیوں کی آواز، اور ہزاروں لوگوں کی دعا—یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جو آپ کو اندر تک جھنجھوڑ دیتا ہے۔
اسی گھاٹ: صبح کی خاموشی

اسی گھاٹ، بنارس کے سب سے جنوبی گھاٹوں میں سے ایک ہے، جو اپنی پرسکون فضا کے لیے جانا جاتا ہے۔ جب میں وہاں صبح سویرے چہل قدمی کر رہا تھا تو مجھے مکمل خاموشی ملی، صرف گنگا کی لہروں کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ۔ یہاں سیاحوں کے ہجوم سے زیادہ مقامی لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی صبح کی پوجا اور غسل کے لیے آتے ہیں۔ مجھے وہاں بیٹھ کر کتاب پڑھنے کا جو مزا آیا، وہ کسی اور جگہ نہیں ملا۔ اسی گھاٹ کی اپنی ایک الگ ہی خوبصورتی ہے، جہاں آپ کو حقیقی بنارس کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔
بنارسی پکوان: ذائقوں کی دنیا
اوہ میرے اللہ! بنارس کے کھانے کی تو کیا ہی بات ہے۔ اگر آپ کھانے کے شوقین ہیں تو یہ شہر آپ کے لیے جنت سے کم نہیں۔ میں نے تو یہاں آ کر اپنا ڈائٹ پلان بالکل بھول ہی گیا۔ گلاب جامن سے لے کر چاٹ تک، ہر چیز میں ایک منفرد ذائقہ ہے۔ میں نے بازار کی گلیوں میں گھومتے ہوئے لکڑی کے چولہے پر بنتے ہوئے لسی کو دیکھا، اور جب ایک گھونٹ پیا تو ایسا لگا جیسے سارے دن کی تھکن اتر گئی۔ مقامی مصالحوں کا استعمال اور کھانا بنانے کا روایتی انداز، یہ سب مل کر بنارسی پکوان کو واقعی خاص بنا دیتے ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں کو فون پر بتایا کہ یہاں کے کھانے کا جو مزہ ہے، وہ میں تمہیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، تمہیں خود آ کر چکھنا ہو گا۔
کچوری گلی اور چاٹ کا جادو
کچوری گلی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، کچوریوں کی جنت ہے۔ مجھے وہاں گرم گرم کچوریاں اور جلیبیاں کھانے کا موقع ملا۔ وہاں کی چاٹ اور ٹکی بھی اتنی مزیدار تھی کہ میں نے ایک ہی بیٹھک میں دو پلیٹیں صاف کر دیں۔ یہ صرف کھانے کی چیزیں نہیں ہیں، یہ بنارس کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں، جہاں لوگ شام کو مل بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے ان لذیز چیزوں کا مزہ لیتے ہیں۔
بنارسی لسی اور پان کا ذائقہ
بنارسی لسی کے تو کیا ہی کہنے! یہ صرف لسی نہیں، بلکہ ایک مکمل تجربہ ہے۔ مٹی کے کلہڑ میں ٹھنڈی ٹھنڈی، گاڑھی لسی جس پر بالائی کی ایک موٹی تہہ جمی ہو، اور اوپر سے پستے اور بادام کی گارنش – اوہ ہو! مجھے یقین ہے کہ ایسی لسی آپ نے زندگی میں کبھی نہیں پی ہو گی۔ اور ہاں، بنارسی پان کا ذکر نہ کرنا تو گناہ ہو گا۔ کھانے کے بعد ایک پتے پر کتھے، چونا، سونف اور گلقند کے ساتھ لپٹا ہوا پان، یہ صرف منہ کا ذائقہ ہی نہیں بدلتا بلکہ آپ کو ایک خوشگوار احساس دیتا ہے۔
قدیم مندر اور روحانی طاقت
بنارس کو مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اور میں نے یہاں ہر گلی، ہر محلے میں چھوٹے بڑے مندر دیکھے ہیں۔ ہر مندر کی اپنی ایک تاریخی اور روحانی اہمیت ہے۔ مجھے وشوناتھ مندر کی وہ عظمت اور روحانی کشش آج بھی یاد ہے۔ وہاں جا کر ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہوں، جہاں سکون ہی سکون ہے۔ پوجا پاٹ کی آوازیں، گھنٹیوں کی گونج اور ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی ایک ایسا ماحول بناتی ہے جو آپ کو روحانی طور پر مضبوط کرتا ہے۔ میں نے وہاں لوگوں کو اپنی آنکھوں سے پوجا کرتے اور ان کے چہروں پر اطمینان دیکھا ہے۔ یہ صرف پتھر کی عمارتیں نہیں ہیں، یہ صدیوں پرانی تاریخ اور عقیدت کی گواہ ہیں۔
کاشی وشوناتھ مندر: ایمان کا مرکز
کاشی وشوناتھ مندر بنارس کا سب سے اہم اور مقدس مندر ہے۔ جب میں نے اس مندر کے اندر قدم رکھا تو مجھے ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ اس کی خوبصورتی، اس کا فن تعمیر، اور وہاں کا روحانی ماحول — سب کچھ ہی دل کو چھو جانے والا ہے۔ میں نے وہاں کے پجاریوں سے مندر کی تاریخ کے بارے میں سنا تو حیران رہ گیا کہ کیسے اس مندر نے اتنی صدیوں کو اپنی آغوش میں سمویا ہوا ہے۔
درگا مندر اور سنکٹ موچن ہنومان مندر
درگا مندر، جسے لال مندر بھی کہا جاتا ہے، اپنی منفرد طرزِ تعمیر اور سرخ رنگت کی وجہ سے توجہ کا مرکز ہے۔ وہاں کی پرسکون فضا اور عقیدت مندوں کا ہجوم مجھے بہت بھایا۔ اس کے بعد میں سنکٹ موچن ہنومان مندر بھی گیا، جو ہنومان جی کو وقف ہے۔ وہاں جا کر ایک عجیب سی مثبت توانائی محسوس ہوتی ہے، اور مجھے ایسا لگا جیسے میری ساری پریشانیاں دور ہو گئیں۔
بنارس کی گلیاں: جہاں وقت رک جاتا ہے
بنارس کی تنگ گلیاں – ارے واہ! یہ تو خود ایک الگ ہی دنیا ہیں۔ مجھے شروع میں تو لگا کہ میں ان بھول بھلیوں میں گم ہو جاؤں گا، لیکن پھر میں نے اس کے اندر چھپی خوبصورتی کو دریافت کیا۔ یہ گلیاں دراصل شہر کی زندگی کی نبض ہیں۔ یہاں آپ کو ہر قسم کے لوگ، ہر طرح کی دکانیں، اور ہر طرح کے رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ میں نے ان گلیوں میں گھومتے ہوئے چھوٹے چھوٹے مندر دیکھے، صدیوں پرانی عمارتیں دیکھیں جن کی دیواروں پر تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ یہ گلیاں صرف راستے نہیں ہیں، یہ ایک زندہ تاریخ ہیں جہاں ہر پتھر ایک کہانی سناتا ہے۔ میں نے خود وہاں ایک چائے والے سے بات کی جو 40 سال سے اسی گلی میں چائے بنا رہا تھا، اور اس کی کہانیوں میں بنارس کی روح جھلکتی تھی۔
شادی کی گلیاں اور دستکاری کی دکانیں
بنارس کی کچھ گلیاں ایسی ہیں جو خاص طور پر شادی کی تیاریوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہاں آپ کو دلہن کے جوڑے، زیورات، اور شادی سے متعلق ہر چیز مل جائے گی۔ میں نے وہاں بنارسی ساڑیوں کی دکانوں پر خاصی دیر گزاری، اور ان کے رنگوں اور ڈیزائینز کو دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ہاتھ سے بنی ہوئی یہ ساڑیاں واقعی فن کا ایک شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ، چھوٹی چھوٹی دکانوں پر لکڑی کے کھلونے، پیتل کے برتن اور دوسرے دستکاری کے نمونے دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ یہاں کے کاریگروں کے ہاتھوں میں کتنا ہنر ہے۔
سڑک کنارے کی زندگی اور مقامی رنگ
ان گلیوں میں زندگی کی دھڑکن محسوس ہوتی ہے۔ سڑک کنارے بیٹھ کر چائے پینے والے لوگ، اخبار پڑھتے بزرگ، اور کھیلتے ہوئے بچے – یہ سب مل کر بنارس کو ایک زندہ دل شہر بناتے ہیں۔ مجھے وہاں ایک چھوٹے سے تھڑے پر بیٹھ کر لوگوں کو آتے جاتے دیکھنے میں جو سکون ملا، وہ کسی مہنگے ریسٹورنٹ میں نہیں ملا۔ یہیں سے آپ کو اصلی بنارس کے لوگوں اور ان کے طرزِ زندگی کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
صبح کا سورج اور شام کی آرتی: بنارس کا دل
بنارس کا ایک اور حسین پہلو یہاں کی صبح اور شام کا منظر ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ صبح سورج کی پہلی کرنیں جب گنگا کے پانی پر پڑتی ہیں تو پورا منظر ایک روحانی چمک سے بھر جاتا ہے۔ اس وقت گھاٹوں پر موجود لوگ، پوجا پاٹ کرتے پجاری، اور کشتیوں میں بیٹھے سیاح – یہ سب ایک ایسے ماحول کا حصہ بنتے ہیں جو انسان کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اور پھر شام کی گنگا آرتی! اس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں، لیکن اس کا جادو ایسا ہے کہ بار بار ذکر کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یہ صرف ایک رسم نہیں، یہ بنارس کی روح ہے، اس کا دھڑکتا دل ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ دو اوقات ہی ہیں جب بنارس اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔
گنگا کی کشتی سیر: ایک لازمی تجربہ
جب میں بنارس میں تھا تو میں نے صبح سویرے گنگا میں کشتی کی سیر کی۔ ملاح نے مجھے ایک ایک گھاٹ کے بارے میں بتایا اور اس کی کہانیاں سنائیں۔ گنگا کے درمیان سے گھاٹوں کا منظر دیکھنا ایک بالکل ہی مختلف تجربہ تھا۔ صبح کی وہ ٹھنڈی ہوا، پرندوں کی آوازیں، اور پرسکون پانی – یہ سب مل کر ایک ناقابل فراموش یاد بن گئے۔ میں آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ بنارس آئیں تو کشتی کی سیر ضرور کریں۔
آرتی کے بعد کی خاموشی
آرتی کے بعد گھاٹ پر ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے۔ وہ خاموشی جو ہزاروں آوازوں کے بعد آتی ہے۔ اس وقت بیٹھ کر گنگا کی لہروں کو دیکھنا اور اپنے اندر کے سکون کو محسوس کرنا ایک بہت ہی روحانی تجربہ ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ آرتی کے بعد بھی کافی دیر تک گھاٹوں پر بیٹھے رہتے ہیں، شاید اسی سکون کو محسوس کرنے کے لیے جو اس شہر کی فضا میں رچا بسا ہے۔
بنارسی ریشم اور دستکاری: فن کا شاہکار
بنارس صرف روحانیت کا مرکز نہیں، یہ فن اور ہنر کا بھی گڑھ ہے۔ میں نے جب بنارسی ساڑیوں کی دکانوں کا رخ کیا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ چمکتی دمکتی ریشمی ساڑیاں، جن پر ہاتھ سے کی گئی کڑھائی اور بنائی کا کام ہوتا ہے، واقعی قابل دید ہیں۔ یہ صرف کپڑے نہیں، بلکہ یہ محنت، ہنر اور صدیوں پرانی روایت کا حسین امتزاج ہیں۔ مجھے وہاں کے کاریگروں سے ملنے کا موقع ملا جو نسل در نسل یہ فن منتقل کر رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر اپنے کام کا فخر صاف جھلکتا تھا، اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ کیوں بنارسی ساڑیاں دنیا بھر میں اتنی مشہور ہیں۔
بنارسی ساڑیاں: ہر دلعزیز تحفہ
بنارسی ساڑیوں کی بنائی کا فن بہت ہی قدیم اور پیچیدہ ہے۔ ہر ساڑی کو بنانے میں ہفتے یا مہینے لگ جاتے ہیں۔ میں نے جب ایک کاریگر کو ساڑی بناتے دیکھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتنی محنت کا کام ہے۔ ان کے ہاتھ اتنی تیزی سے تاروں کے درمیان چل رہے تھے کہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ یہ ساڑیاں صرف خواتین کے لیے کپڑا نہیں، بلکہ یہ ایک روایتی پہچان ہیں، اور خاص مواقع پر پہنی جاتی ہیں۔ مجھے خود ایک ساڑی خریدنے کی خواہش ہوئی تاکہ میں اس ہنر کو اپنے ساتھ یادگار کے طور پر لے جا سکوں۔
پیتل کے برتن اور لکڑی کے کھلونے
بنارس میں ریشم کے علاوہ بھی کئی قسم کی دستکاری موجود ہے۔ میں نے بازاروں میں پیتل کے چمکتے ہوئے برتن دیکھے جن پر خوبصورت نقاشی کی گئی تھی۔ یہ برتن گھر کی سجاوٹ کے لیے بہترین تھے۔ اس کے علاوہ، مجھے لکڑی کے رنگ برنگے کھلونے بھی بہت پسند آئے جو خاص طور پر بچوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ بنارس صرف مندروں اور گھاٹوں کا شہر نہیں، بلکہ یہ فن اور ہنر کا بھی ایک بہترین مرکز ہے۔ میں نے کچھ چھوٹے چھوٹے کھلونے اپنے بھتیجوں کے لیے خریدے، اور مجھے یقین ہے کہ انہیں یہ بہت پسند آئیں گے۔
| خصوصیت | تفصیل | میرا تجربہ/مشورہ |
|---|---|---|
| گھاٹ کی سیر | گنگا کے کنارے مختلف گھاٹ اور ان کی روحانی اہمیت۔ | صبح سویرے کشتی میں بیٹھ کر گھاٹوں کا نظارہ کرنا نہ بھولیں۔ یہ سکون بخشتا ہے۔ |
| کھانا پینا | بنارسی چاٹ، لسی، کچوری، اور مشہور پان۔ | مقامی کھانوں کا بھرپور مزہ لیں، خاص کر کچوری گلی کی چاٹ اور لسی تو لازمی ہے۔ |
| مندر | کاشی وشوناتھ، درگا مندر اور سنکٹ موچن ہنومان مندر۔ | وشوناتھ مندر کی روحانیت آپ کو اندر تک محسوس ہوگی، ضرور جائیں۔ |
| بنارسی ساڑیاں | ہاتھ سے بنی ریشمی ساڑیاں اور دستکاری کا ہنر۔ | خوبصورت ساڑیاں اور دیگر دستکاری کی اشیاء خریدنا ایک بہترین یادگار ہے۔ |
زندگی اور موت کا فلسفہ: ایک منفرد نظریہ
بنارس کو کئی بار زندگی اور موت کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دھڑکتی ہے اور موت کو بھی ایک الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ میں نے وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کیسے وہ زندگی کی تلخیوں کو قبول کرتے ہیں اور موت کو بھی ایک قدرتی عمل مانتے ہیں۔ یہ فلسفہ مجھے بہت متاثر کر گیا۔ منیکرنیکا گھاٹ پر جب میں گیا تو وہاں کی فضا کافی پرسکون تھی، لوگ اپنے پیاروں کے آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ زندگی کی حقیقت اور فانی پن کو محسوس کرتے ہیں۔ مجھے وہاں جا کر ایسا لگا جیسے میں خود کو اور زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہا ہوں۔
منیکرنیکا گھاٹ: اختتام اور آغاز
منیکرنیکا گھاٹ بنارس کے سب سے اہم گھاٹوں میں سے ایک ہے، خاص طور پر ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے۔ یہاں لوگوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ مجھے یہاں جا کر ایک عجیب سی روحانیت محسوس ہوئی۔ یہ جگہ آپ کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے اور یہ احساس دلاتی ہے کہ زندگی ایک مستقل بہاؤ ہے، جس میں اختتام بھی ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہاں لوگ غمگین تو تھے، لیکن ان کے چہروں پر ایک سکون بھی تھا، شاید اس یقین کی وجہ سے کہ ان کے پیارے کو موکش مل گیا ہے۔
بنارسی ثقافت میں موت کا مقام
بنارسی ثقافت میں موت کو اختتام نہیں بلکہ زندگی کے سفر کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ بنارس میں مرنے والے کو موکش حاصل ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ مجھے بہت منفرد لگا۔ میں نے اس بارے میں مقامی لوگوں سے بات کی، اور ان کے خیالات نے میرے اپنے تصورات کو بہت حد تک بدل دیا۔ یہ شہر آپ کو صرف جگہیں نہیں دکھاتا، بلکہ زندگی کے گہرے فلسفے سے بھی متعارف کراتا ہے۔
گفتگو کا اختتام
میرے پیارے دوستو، بنارس کا یہ سفر صرف ایک جگہ کا سفر نہیں تھا، یہ میری روح کا سفر تھا۔ میں نے یہاں جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور چکھا، وہ میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش حصہ بن گیا ہے۔ گنگا کے گھاٹوں سے لے کر تنگ گلیوں تک، ہر قدم پر ایک نئی کہانی، ایک نیا تجربہ میرا منتظر تھا۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ باتیں آپ کو بھی بنارس کی طرف کھینچیں گی اور آپ بھی اس شہر کی روحانی اور ثقافتی خوبصورتی میں کھو جائیں گے۔ یہ شہر واقعی ایک زندہ تاریخ ہے جو آپ کو اپنے اندر چھپی گہرائیوں سے ملاتی ہے۔
چند کارآمد نکات
1. بنارس جانے کا بہترین وقت اکتوبر سے مارچ کے درمیان ہوتا ہے، جب موسم خوشگوار ہوتا ہے اور آپ آرام سے گھوم پھر سکتے ہیں۔ میں نے خود اسی دوران سفر کیا تھا اور موسم بہت عمدہ تھا۔
2. مقامی ٹرانسپورٹ کے لیے رکشہ یا آٹو رکشہ بہترین آپشن ہیں، کیونکہ گلیاں تنگ ہیں اور بڑی گاڑیاں ہر جگہ نہیں جا سکتیں۔ گھاٹوں پر پیدل چلنے کا اپنا ہی مزہ ہے، یہ میری ذاتی رائے ہے۔
3. ہوٹل بک کرتے وقت کوشش کریں کہ گھاٹوں کے قریب جگہ ملے تاکہ آپ صبح کی آرتی اور شام کے دلکش نظاروں سے بھرپور لطف اٹھا سکیں۔ میں نے بھی ایک ایسا ہی ہوٹل چنا تھا اور اس کا فائدہ ہوا۔
4. کھانے پینے میں احتیاط کریں اور صرف صاف ستھری جگہوں سے ہی کھائیں۔ مقامی لسی اور چاٹ کا ذائقہ ضرور چکھیں، لیکن صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ میں نے خود سٹریٹ فوڈ کھاتے ہوئے یہ احتیاط برتی تھی۔
5. مقامی ثقافت اور روایات کا احترام کریں، خاص طور پر مندروں اور گھاٹوں پر۔ پجاریوں اور مقامی لوگوں سے بات چیت میں شائستگی کا مظاہرہ کریں، آپ کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
اہم نکات کا خلاصہ
بنارس ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو روحانیت، ثقافت اور لذیذ کھانوں کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے۔ گنگا کے گھاٹ، جو زندگی اور موت کے فلسفے کو بیان کرتے ہیں، یہاں کی روح ہیں۔ قدیم مندر اور ان کی کہانیاں، شہر کی تاریخ کو زندہ رکھتی ہیں۔ بنارسی پکوان، خاص طور پر چاٹ، لسی اور پان، آپ کے ذائقے کو ایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ تنگ گلیاں اپنی الگ خوبصورتی رکھتی ہیں اور بنارسی ریشم کا ہنر یہاں کی دستکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ شہر اپنے ہر زائر کو کچھ نہ کچھ سکھا کر بھیجتا ہے۔ یہ صرف ایک سیاحتی مقام نہیں، بلکہ ایک ایسا تجربہ ہے جو آپ کی روح کو سکون بخشتا ہے اور آپ کو زندگی کے گہرے معانی سے روشناس کراتا ہے۔ مجھے سچ میں اس شہر سے ایک گہرا لگاؤ ہو گیا ہے، اور میں بار بار یہاں آنا چاہوں گا۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: بنارس کو واقعی اتنا روحانی اور منفرد کیا چیز بناتی ہے؟
ج: میرے عزیز دوستو، جب میں بنارس پہنچا، تو مجھے احساس ہوا کہ یہ صرف ایک شہر نہیں، بلکہ ایک جیتا جاگتا روحانی تجربہ ہے۔ وہاں کی فضا میں صدیوں کی تاریخ اور عقیدت گھلی ہوئی ہے۔ گنگا کے گھاٹ پر جب صبح کی پہلی کرن پڑتی ہے اور پنڈتوں کی پوجا پاٹ کے نغمے ہوا میں گونجتے ہیں، تو ایک عجیب سا سکون اور اطمینان دل کو چھو لیتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے لوگ پورے خلوص کے ساتھ گنگا میں ڈبکی لگاتے ہیں اور اپنی ہر فکر بھول کر صرف اس لمحے میں جیتے ہیں۔ یہ صرف پانی نہیں، بلکہ ان کے لیے زندگی کا ایک حصہ ہے، ایک پاکیزہ احساس ہے۔ بنارس کی ہر گلی، ہر پرانی عمارت، ہر پتھر ایک کہانی سناتا ہے اور آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ شہر زندگی اور موت، دکھ اور سکھ، سب کو ایک ساتھ گلے لگاتا ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی انفرادیت ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے آپ کسی زندہ تاریخ کی کتاب کے صفحات پلٹ رہے ہوں، جہاں ہر ورق ایک نیا راز کھولتا ہے۔
س: اگر کوئی پہلی بار بنارس جا رہا ہے تو اسے کون سے تجربات ضرور کرنے چاہئیں؟
ج: جب میں پہلی بار بنارس گیا تھا تو مجھے بھی یہ فکر تھی کہ کیا دیکھوں اور کیا نہ دیکھوں، لیکن میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ وہاں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آپ کو ضرور کرنی چاہیئں۔ سب سے پہلے تو صبح سویرے گنگا کے گھاٹ پر کشتی کی سیر ضرور کریں، خاص طور پر سورج طلوع ہوتے وقت۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ وہ منظر کتنا دلکش ہوتا ہے، جب ہلکی دھند میں مندروں کے سائے اور پوجا پاٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ دشاشومیدھ گھاٹ پر شام کی گنگا آرتی ضرور دیکھیں، یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو آپ کی روح کو تازگی بخشے گا۔ وہاں کی توانائی، روشنیوں کا رقص، اور عقیدت کا ماحول آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس کے علاوہ، تنگ گلیوں میں گھوم کر مقامی بازاروں کو دیکھیں اور وہاں کے مشہور لسی اور چاٹ کا ذائقہ ضرور لیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک چھوٹی سی دکان سے لسی پی تھی، اس کا ذائقہ آج تک میرے ذہن میں تازہ ہے۔
س: بنارس کے حقیقی رنگوں کو محسوس کرنے اور وہاں کے مقامی زندگی کا حصہ بننے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
ج: اگر آپ بنارس کے حقیقی رنگوں کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ صرف سیاحوں کی طرح گھومنے پھرنے سے کام نہیں چلے گا۔ آپ کو تھوڑا وقت وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ گزارنا ہوگا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے چھوٹے ہوٹلوں میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے وہاں کے لوگ زندگی کے فلسفے پر بات کرتے ہیں، ان کی سادہ باتوں میں گہری حکمت چھپی ہوتی ہے۔ پرانے شہر کے علاقوں میں جائیں، وہاں کی گلیوں میں بھٹکیں اور چھوٹے مندروں کو دیکھیں۔ میرا مشورہ ہے کہ کسی چھوٹے سے گھاٹ پر جا کر کچھ دیر خاموشی سے بیٹھ جائیں اور گنگا کے بہاؤ کو محسوس کریں۔ وہاں کی زندگی کو قریب سے دیکھیں، کیسے لوگ اپنے روزمرہ کے کام کرتے ہیں، بچے کھیلتے ہیں، اور بوڑھے بزرگ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ وہاں کے کسی مقامی ریسٹورنٹ میں جا کر روایتی کھانا کھائیں، اور ان سے کھانے کی ترکیبیں پوچھیں۔ مجھے تو یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک چھوٹی دکان پر کچوری اور جلیبی کھائی تھی، اس کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ جب آپ اس طرح وہاں کے لوگوں سے جڑتے ہیں، تو بنارس آپ کے لیے صرف ایک شہر نہیں رہتا، بلکہ ایک زندہ تجربہ بن جاتا ہے۔






